Election 2024 Pakistan – A Step To Another Martial Law?
محکمہ داخلہ پنجاب نے امن و امان کی صورتحال اور دہشتگردی کے واقعات کے امکانات کو جواز بنا کر ایسے وقت میں جبکہ عام انتخابات سر پر ہیں پنجاب بھر میں 12 فروری تک دفعہ 144 نافذ کر کے الیکشن کمپین کے لئے بغیر اجازت کارنر میٹنگز اور جلسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دن عمران خان نے جیل سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اتوار کے دن سڑکوں پر نکلنے کی کال دی تھی جس پر آج دن کو ملک بھر میں لاکھوں کارکنان نے ریلیاں نکالی تھیں اور شام 6 بجے پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔
گزشتہ دن ہی اسلام آباد میں دہشتگردی الرٹ جاری کر کے 5 بڑی یونیورسٹیاں غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دی گئی تھی جبکہ آج اتوار کے دن سکول کے بچوں کو بھی وقت سے پہلے ہی گھروں کو بھیج دیا گیا اور بدھ کی چھٹی بھی دیدی گئی ہے جبکہ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کے باہر بڑی تعداد میں فوجی گاڑیوں اور کی آمد و رفت بھی دیکھی جا رہی ہے جس سے شہری خوف و حراس کا شکار ہیں۔
اسلام آباد میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے ریسرچ آپریشن کی بھی اطلاعات ہیں اور جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں ان دو دنوں میں ایک خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے عام انتخابات مین سکیورٹی کی فراہمی کیلئے آرمڈ فورسز کو بلانے کی سمری کو منظور کرتے ہوئے نگران وفاقی کابینہ جنرل الیکشن 2024 کے لئے پاکستان آرمی کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔
عام انتخابات کے دوران پاکستان آرمی کے 2 لاکھ 77 ہزار افسران و اہلکار الیکشن کے دوران سکیورٹی کی ڈیوٹی سر انجام دیں گے جبکہ رینجرز اور ایف سی جیسے ادارے بھی عام انتخابات میں پاکستان آرمی کی مدد کے لئے تعینات کئے جا رہے ہیں۔
حساس حلقوں میں پاکستان آرمی اور سول آرمڈ فورسز کی مشترکہ کوئیک ریسپانس فورسز کی ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 8 فروری کو الیکشن کے لئے پولنگ ہونے جا رہی ہے، اور پولنگ سے قبل امن و امان کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے، الیکشن کے لئے حتمی تیاریاں تکمیل کے مراحل میں ہیں جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تمام بلدیاتی محکموں اور کنٹونمنٹ بورڈز کے فنڈز بھی منجمد کردیے گئے ہیں، فنڈز کے انجماد الیکشن شیڈول کے جاری ہونے کے ساتھ ہی ہو جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہ کیا جانا الیکشن کمیشن کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے لئے ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق انتخابی مہم 6 اور 7 فروری کی درمیانی شب 12 بجے ختم ہو گی جس کے بعد الیکشن کمپین نہیں چلائی جا سکے گی اور خلاف ورزی کرنے والے امیدواروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
الیکشن کمیشن کی یہ ہدایات غیر ضروری محسوس ہوتی ہیں کیونکہ پنجاب میں تو محکمہ داخلہ نے ویسے ہی بغیر اجازت کے کارنر میٹنگ، ریلیوں اور جلسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پنجاب میں دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد ریاستی اداروں کے من پسند سیاست دانوں اور لاڈلوں کو تمام تر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہو گی اور تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو جو کسی نہ کسی صورت الیکشن کمپین چلا رہے ہیں بالکل ہی باندھ دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ الیکشن شیڈول آنے کے بعد پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور خاص کر قبائلی علاقوں کی جانب سے دہشتگردی کی ایک بڑی لہر شروع ہوئی تھی جس میں سینکڑوں شہری اور فورسز کے لوگ مارے جا چکے ہیں، پاکستان ایران جھڑپ کے بعد ملک میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے خود کش حملوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
انٹیلی جنس اداروں کی اطلاعات ہیں کہ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی بی ایل اے کی جانب سے ایک خاتون خود کش بمبار کو اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں حملے کے لئے بھیجا جا سکتا ہے۔
امکان ہے کہ عام انتخابات سے قبل ملک میں امن و امان اور سکیورٹی کے حالات میں اس قدر بگاڑ آ جائے گا کہ 8 فروری کو شہری ووٹ ڈالنے کے لئے اپنے گھروں سے ہی نہ نکل سکیں، چھوڑے بڑے شہروں میں فوج بھی تعینات کی جائے ہے جس کے بعد الیکشن والے دن شہریوں کو ایک طرح سے کرفیو جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس کے باوجود اگر پبلک ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے باہر نکل آئی تو ملک بھر میں پولیس، رینجرز اور ایجنسیوں کے لوگوں کی جانب سے سادہ کپڑوں میں بہت بڑے پیمانے پر سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور اٹھائے جانے کی سرگرمیاں بھی دیکھی جائیں گی اور اگر پھر بھی پبلک قابو نہیں آئی تو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے خدشات بھی موجود ہیں۔
واضح رہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر باجوہ کی جانب سے دس سالہ پلان کے متعدد بار اشارے دیئے جا چکے ہیں، ان کا دعوی ہے کہ دس سال میں پاکستان کو اس کے ٹریک پر ڈال دیں گے جبکہ ان کی مدت ملازت زیادہ سے زیادہ دو سال یا مزید تین سال کی ایکسٹیشن ہو سکتی ہے۔
آرمی چیف کے دس سالہ پلان کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان آرمی ایک بار پھر آئین کو روندنے کی تیاریوں میں ہے اور جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کے آئین کو معطل کرتے ہوئے مارشل لاء لگایا جا سکتا ہے۔