The Story Of The Special Status of Jammu and Kashmir
تحریر: محمد شاہ رون مغل مظفرآباد
بدقسمت ریاست جموں کشمیر ہمیشہ سے ہی اپنے بے پناہ حسن اور وسائل کی بناء پر ہوس پرستوں کی نظروں میں رہی اور یہی وجہ ہے کہ مختلف حملہ آوروں نے اس پر لشکر کشی کو اپنی سعادت سمجھا، اور جس نے فتح کیا وہ تو عالی وقار کہلایا لیکن 1947 سے یہاں کی صورت حال یکسر بدل گئی۔
جب ریاست جموں کشمیر تقسیم ہو کر دو حصوں میں بٹ گئی، ایک طرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر تو دوسری طرف انڈیا کے زیر انتظام کشمیر، اقوام متحدہ اپنا کردار ادا نہ کر سکی اور نہ ہی ریاست کے لوگوں کو حق خود ارادیت دلوا سکی ہاں اپنی کچھ تھوڑے بہت اثرورسوخ سے ریاست کی عوام کو پاکستان اور ہندوستان کی طرف سے بہتر سہولیات فراہم کرنے تک پابند کرتی رہی۔
دونوں ممالک کی حکومتیں اپنے تئیں دنیا میں اپنے زیر انتظام حصے کو دنیا کے سامنے بہتر ثابت کرنے اور نہ صرف اقوام عالم بلکہ کشمیریوں کی نظر میں بھی خود کو بہتر کی کوشش میں چند اقدامات کرتی رہیں۔ ایسا ہی ایک اقدام بھارت نے اپنے زیر انتظام علاقے کے لئے 17 اکتوبر 1949 کو بھارت کی مجلس منتخبہ اور قانون ساز اسمبلی (پارلیمنٹ ) نے آئین ہند کی دفعہ 370 کو تسلیم کرتے ہوئے کیا۔اس دفعہ کی رو سے بھارت اور ریاست جموں کشمیر کے رشتوں اور تعلقات کو حتمی شکل دی گئی۔
دفعہ 370 کیا ہے ؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس دفعہ میں دراصل ہے کیا۔۔ ؟
1947 میں کشمیر میں ہونے والی جنگ اور اس کے نتیجے میں کشمیر کے ڈوگرہ راجہ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کے بعد اگلا مرحلہ ریاست کے دہلی سے تعلقات تھے۔جس کے انڈین آئین میں دفعہ 370 کو شامل کیا گیا جس کی رو سے جموں کشمیر کو ہند کی باقی ریاستوں کی نسبت خصوصی حیثیت درجہ اور اختیارات دیے گئے۔ اسی شق کے مطابق 1951 میں جموں کشمیر میں آئین ساز اسمبلی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ یہ شق دراصل مرکز یعنی دہلی اور سری نگر کے درمیان تعلق کا تعین کرتی تھی۔ اس کے مطابق ریاست خود مختار ہو تھی۔
جو دفعات ہندوستان کی دوسری ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں وہ جموں کشمیر پر نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کے تحت ریاست کو اپنا الگ آئین بنانے کی اجازت تھی۔ریاست کو اپنا الگ پرچم رکھنے کا حق تھا۔ جبکہ انڈیا انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا اختیار بھی نہ تھا۔ اس شق کے مطابق دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاؤہ کسی اور معاملے میں مرکز مداخلت نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی مرکز کے دیگر قوانین ریاست جموں کشمیر پر لاگو ہو سکتے تھے۔
مخصوص حالات میں اگر سارے بھارت میں ایمرجنسی نافذ ہو جاتی تو بھی ریاست جموں کشمیر پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔ اس شق کو شامل کرنے اور اس تعلق کو بنانے میں بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور کشمیر کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ نے کئی مہینوں تک محنت کی اور بار بار نشستیں کیں۔
Article 35 A
اس میں ایک دفعہ آرٹیکل 35 اے بھی ہے جو کہ ایک صدارتی حکم ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کو پہچان مستقل باشندہ کے تحت خصوصی حقوق حاصل تھے۔ اس کے تحت کوئی غیر ریاستی ریاست میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا۔کوئی غیر ریاستی ریاست میں نوکری حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ غیر ریاستی باشندے ریاست میں آزادانہ سرمایہ کاری نہیں کر سکتے تھے۔
پھر کیا ہوا ؟
پنڈت جواہر لعل نہرو جنہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے کو پیش کر کے پاکستان کو ایک حملہ آور اور بھارت کو ریاست کا نگران قرار دیا تھا اور بھارتی آئین میں اس ریاست کے مستقبل کے تحفظ کے لیے دفعہ 370 کو شامل کروایا تھا۔ ڈیڑھ دہائی میں اس قدر بدل چکے تھے کہ مرکز اور ریاست کے درمیان ہوا گزرنے کی جگہ بھی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔
وہ ایک ایسے سست اور خاموش عمل میں مصروف تھے جس کا مقصد ریاست کو آخر کار بھارتی یونین کا ناقابل تنسیخ حصہ بنانا اور اس کی ہر خصوصی پوزیشن کو ختم کرنا تھا۔اس بات کا اشارہ نہرو کے اپنے ہی بیان سے ملتا ہے جو انہوں نے لوک سبھا کے ایک اجلاس سے 27 نومبر 1963 کو خطاب کرتے ہوئے دیا تھا وہ کہتے ہیں۔
” یہ دفعہ 370 ختم ہو چکی ہے، اس حوالے سے پچھلے چند برسوں کے دوران بہت کچھ کیا جا چکا ہے، جس سے بھارت اور ریاست جموں کشمیر کے رشتوں میں دوریاں کافی حد تک کم ہو چکی ہیں ، اب اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کشمیر اب مکمل طور پر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے مجھے لگتا ہے کہ اس دفعہ کو دھیرے دھیرے پوری طرح سے ختم کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔”
اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ اس دفعہ کو اپنی پیدائش کے ساتھ ہی ختم کرنے کا ایک سست مگر طویل سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔
5 اگست 2019
5 اگست 2019 کو بھارت کی طرف سے دفعہ 370 کو ختم کرنے کا اعلان ہوا اور ساتھ ہی پوری ریاست میں کرفیو لگا دیا گیا۔ 6 اگست کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا نے راجیہ سبھا کی قرارداد کے مطابق 370 کی منسوخی اور کشمیر میں انتظامی تبدیلیوں کے لئے مجوزہ ری آرگنائزیشن ایکٹ کی منظوری دے دی۔ 9 اگست 2019 کو یہ ایکٹ باضابطہ منظور ہو گیا۔
370 کی منسوخی سے کیا فرق پڑا ؟
اس دفعہ کی منسوخی سے ریاست کو حاصل تمام خصوصی اختیارات درجات اور حیثیت ختم ہو گئی۔ ریاست کے تمام داخلی امور وزیراعلی کے بجائے براہ راست ہندوستان کے وزیر داخلہ کے پاس چلے گئے۔ انڈیا کے تمام قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کے محتاج تھے اب خود بخود لاگو ہو جائیں گے۔ جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت چھ سال کی جگہ 5 سال کر دی گئی۔
کشمیر میں خواتین کے لیے کچھ روایتی قوانین تھے جو کہ ختم ہو گئے۔غرض ہر بات کا فیصلہ اب ریاستی نمائندگان کے بجائے دہلی سرکار کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی افراد کو ریاست میں جائیداد و زمین کی خرید وفروخت کی آذادی ہو گی۔ غیر ریاستی افراد اپنی مرضی سے ریاست میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
اس وقت مختلف درخواست گزاروں کی طرف اس ایکٹ کی منسوخی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ 28 اگست کو اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ جنھوں نے فیصلہ دیا کہ اس کیس کو لارجر بینچ کے حوالے کیا جائے۔
End Of The Special Status of Jammu and Kashmir
بالآخر جولائی 2023 کو چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا۔ جس نے 11 دسمبر 2023 کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا بھارتی حکومت کا اقدام درست قرار دے دیا۔
اور یوں ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔
in this article the writer told the story of how the special status of Jammu and Kashmir has been ended by the constitution of the Hindustan/India.
Good