sardar akhtar mengal speech in pishin jalsa
پشین میں اپوزیشن الائنس کے پہلے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے ببانگ دہل اسٹیبلشمنٹ اور فوج کا نام لے کر حکومت پر تنقید کی ہے اور ڈیپ اسٹیٹ کے طاقت ور عناصر کو للکارا ہے۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ میں اس کو پاکستان کی حکومت نہیں سمجھتا، نہ ہی مرکز کی حکومت کو پاکستان کی حکومت سمضحتا ہوں، یہ اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے، یہ الیکشن کمیشن کی حکومت ہے، یہ فارم 47 کی حکومت ہے، 8 فروری کو مینڈیٹ چوری کر کے بنایا گیا۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ آپ ایک بکری چور کو تو گرفتار کر سکتے ہیں، موٹر سائیکل چور کو گرفتار کر سکتے ہیں، انہوں نے ملک کی عوام کا مینڈیٹ چوری کیا ہے، لوگوں کے حق رائے دہی کا اختیار چوری کیا گیا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ عوام کا حق رائے دہی کس نے چوری کیا ہے؟
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ایک ایف آئی آر تو کٹ گئی ہو گی ایک دو اور ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم بات کرتے ہیں اسٹیبلشمنٹ یا فوج کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں غدار ہیں، چلو ہم آپ کا نام نہیں لے رہے، کیا ہندوستان کی فوج یہ مینڈیٹ چوری کیا؟ کیا افغانستان کی فوج مینڈیٹ چوری کیا؟ کیا ایران کی فوج نے مینڈیٹ چوری کیا؟ یا امریکہ کی فوج نے چوری کیا؟
اختر مینگل نے کہا کہ چلو فرض کر لیتے ہیں کہ ہندوستان کی فوج نے آ کر ڈبے چرائے اور ٹھپے مارے، مینڈیٹ چرایا، اگر اس نے چرایا ہے تو پھر تم کسا مرض کی دوا ہو جو یہاں بیٹھے ہوئے ہو، تمہیں جو تنخواہیں مل رہی ہیں، یہ جو مرعات مل رہی ہیں، کرنیلوں سے جرنیلوں تک جو یہاں ٹھاٹھیں مار کر گھومتے ہو، عوام کے ٹیکس پر پلتے ہو، عوام کے ٹیکس کھا کھا کر ٹنوں کے حساب سے تمہارا وزن بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا اسی لئے تمہیں یہ تنخواہیں دی جاتی ہیں کہ تم عوام کے مینڈیٹ کو چرا کر اور اس کو ان لوگوں کو دے دو جن کو ان کے گھر والے بھی ووٹ نہیں دیتے۔
پشین جلسے سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایسے لوگ کامیاب کروائے گئے ہیں جن کو ان کے محلے کے لوگ بھی نہیں جانتے، وہ آج آ کر ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ اس ملک میں جو خوشحال طبقہ ہے یہ وہ اسٹیبشلمنٹ ہے جس کی ساتھ پشتیں آباد ہو چکی ہیں، پاکستان کے لوگوں کے ٹیکس کے پیسے کھا کھا کر ، لیکن اس ملک کی عوام آج بھی بدحال ، بیروزگار اور ایک وقت کی روٹی کے لئے محتاج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم بات کرتے ہیں کہ ہمارے لوگ اٹھائے جا رہے ہیں ، ہم جب اسمبلیوں میں مسنگ پرسن کا تذکرہ کرتے تو لوگ ہم پر طنز کرتے تھے، ہم اس وقت بھی کہہ رہے تھے اس کو روکو کسی نے ہماری بات نہیں سنی، آج ملک کے کونے کونے میں مسنگ پرسنز کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
عید کے موقع پر لوگ عید کی خوشیاں مناتے ہیں، جشن مناتے ہیں، ایک ہم قوم ہیں جو ہماری مائیں بہنیں عید کے خوشی کے دن بھی سڑکوں پر اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہی ہیں، ایک ہم ہیں جب قربانی کی عید ہوتی ہے لوگ جانور ذبح کرتے ہیں، ہم اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ عید کے دن ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے نوجوانوں کی لاشیں گرائی جاتی ہیں اور پھر ہم سے توقع کی جاتی ہے ہم خاموش رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک جانور کے سامنے اس کے بچے کو ذبح کرو تو چلاتا ہے تو ہم بھی بولیں گے تو سہی، انہوں نے کہا کہ ہمارے بچوں کے لئے کفن کا کپڑا تک دستیاب نہیں ہوتا، آپ نے ہمارے بچوں کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا اور ان پر چونا ڈال دیا گیا تاکہ ان کے چہرے مسخ ہو جائیں اور وہ پہچانے نہ جائیں
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اس ظلم و زیادتی کے باوجود بھی ہم چاہتے ہیں یہاں پر قانون کی بالادستی ہو اور جمہوریت پلے لیکن جمہوریت کی بحالی کے لئے بھی دفعہ 144، الیکشن پر بھی دفعہ 144، جب اپنے حقوق کے لئے نکلیں تب بھی دفعہ 144 ، ہم اس دفعہ 144 کو بھی قبول نہیں کرتے اور فارم 47 کی حکومت کو بھی قبول نہیں کرتے۔
آخر میں انہوں نے خراب موسم کے باوجود جلسے میں شرکت پر تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔