Bilawal Bhutto Zardari Latest Speech
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ جو قاتل ہوتا ہے وہ ہمیشہ جائے وقوعہ پر واپس لوٹتا ہے، اس لاہور ہائیکورٹ میں ہماری دومظلوم، متاثرہ نسلیں انصاف مانگنے کے لیے آتی رہی ہیں۔
میں بڑے احترام سے کہتا ہوں کہ آج تک اس لاہور ہائی کورٹ کو کرائم سین کی طرح دیکھا جاتا ہے ، قاتل آمر ضیاء الحق تھا ، قاتل لاہور ہائیکورٹ، سپریم کورٹ کے جج صاحبان تھے ،وہ وکلاء اور بیورو کریٹس تھے جو سہولت کار بنے ،تمام قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل ہیں۔
میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اوران تمام ججز کا شکر گزار ہوں جوآصف علی زرداری کے 12سال قبل بھیجے گئے ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں ،امید یہی ہے کہ اتنے سالوں بعد قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دیا جائے گا، اس ملک کے عوام کو انصاف دیا جائے گا اور ہمارے جج صاحبان اپنے فیصلوں سے داغ دھوئیں گے۔
اس لئے نہیں کہ مجھے ،میرے خاندان یا میری جماعت کو انصاف دیں گے بلکہ وہ پتھر پر ایک لکیر کھینچیں گے کہ آج کے بعد کسی وزیر اعظم کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جائے گا چاہے وہ وزیر اعظم پیپلز پارٹی سے ہو ،مسلم لیگ (ن) سے ہو یا اس کا تعلق تحریک انصاف سے ہو، یا آگے جا کر جو بھی اس ملک کے وزیر اعظم بنیں گے ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جائے گا تاکہ یہ ملک ترقی کر سکے۔
ذوالفقا ر علی بھٹو نے مسلم امہ کو سمجھایا تھاکہ ان کے پاس جو تیل ہے یہ صرف کمائی کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ آپ کی طاقت ہے اور آپ اس طاقت کو استعمال کریں ، آج ہم د یکھ رہے ہیں کس طرح فلسطین کے عوام پر ظلم کئے جارہے ہیں تب بھی یہ ظلم کیا جارہا تھا ، اس وقت ذوالفقا رعلی بھٹو شہید موجود تھے جنہوں نے پوری مسلم امہ کو ایک کر کے یہ فیصلہ لیا جب تک فلسطینیوں پر ظلم جاری رہے گا ہم تیل نہیں دیں گے۔
اس وقت کتنے بڑے بڑے فیصلے لئے گئے ،پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ایٹمی قوت ملک بنا ، اس وقت پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامک بم کہا گیا ، کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ حادثہ تھا کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر جو شخص بھی اس وقت اوآئی سی کے فیصلے میں موجود تھا ان کو شہید کیا گیا ۔ہم یہی امید رکھتے ہیں کہ عدالت کتنے سال گزرنے کے بعد اب نہ صرف قانونی لحاظ سے قانون کے مطابق اس غلط فیصلے کو درست کرے گی بلکہ تاریخ کو بھی درست کیا جائے گا اورعوام کو بتائیں گے کہ آپ کے قائد کے قاتل کون تھے۔
بلاول بھٹو نے کہاکہ پاکستان میں اس وقت سیاست میں پولرائزیشن او رایک شدت ہے ،یہاں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے حق میں نعرے لگنے پر خوش ہوں، یہاں پر سیاست کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کر دیا گیا تھااس میں سب سے اہم کردار بانی پی ٹی آئی کا تھا، آج بار کا صدر کہہ رہا ہے ہم بات کریں گے، وہ اس وقت کہتا تھا میں خود کشی کرلوں گا لیکن چوروں سے بات نہیں کروں گا۔
سیاست میں تربیت دی جاتی ہے ۔یہ نہیں ہونا چاہیے کہ میں اچھا ہوں فلاں جماعت غدار ہے ، اگر تمہارا تعلق فلاں جماعت سے ہے تو تم کافر ہو ،اس طریقے سے ملک نہیں چلا سکتے۔میں کسی سیزبردستی جئے بھٹو کا نعرے نہیں لگوائوں گا مگر انتی امید رکھتا ہوں اورآپ بھی مانیں کہ میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں اورمیں بھی مانوں کہ آپ محب وطن پاکستانی ہیں۔
میں کسی لیڈر سے اختلاف رکھ سکتا ہوں لیکن میں سیاسی کارکن کا احترام کرتا ہوں ،چاہے وہ پیپلز پارٹی سے ہو، (ن) لیگ سے ہو یا تحریک انصاف سے ہو،مجھے آپ کی مدد چاہیے ، ملک میں جو بخار چڑھا ہوا ہے ہم یہ بخار توڑیں گے ،
جو ایک دوسرے کو گالی دے کر کہتے ہیں ہم سیاست کر رہے ہیں، ایک دوسرے کو جیل بھیجنے کو سیاسی کا میابی سمجھتے ہیں یہ کامیابی نہیں بلکہ یہ سیاست ،سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کی شکست ہے، آج اگر پاکستان میں پھر انتقام ،نفرت ،تقسیم کی سیاست نظر آرہی ہے تو یہ ماننا پڑے گا اس کو پی ٹی آئی سیاست میں لے کر آیا۔
جب ہم نے کہا کہ سیاسی اختلافات کو سیاسی اختلافات تک ہی رکھیں ذاتی دشمنی پر نہ اتر آئیں ،اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں ،ایک دوسرے کے دشمن نہ بنیں تو ہمارے اس موقف کو مک مکا کہا گیا ہمیں طعنہ دیا گیا ، پاکستان پچیس کروڑ عوام کا ملک ہے ،آج تاریخ کا سب سے بڑا معاشی بحران ہے ، اس ملک کے بہت سے مسئلے ہیں خطرے ہیں ، جیو پولیٹیکل خطرات ہیں ،دہشتگردی کے خطرے ہیں ، اگر لڑتے رہیں گے تو مسائل حل نہیں کر سکیں گے۔
میں چاہتا ہوں ہم روایتی سیاست کو دفن کر کے نئی سمت میں لے جائیں جہاں سیاستدان اپنے دائرے میں کام کریں تو ہم باقی اداروں کو بھی اس پر لا سکتے ہیں ، جب تک سب یہ فیصلے نہیں کرے گا کوئی فرق نہیں پڑے گا،اگر ہم یہی پرانی سیاست کریں گے جو بھی وزیر اعظم آئے گا ملک نہیںچلے گا ، ہم معاشی مسائل سے نہیں نکل سکیں گے،اپنے آپ کو اپنے عوام کو مشکلات سے نہیں بچا سکیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا کیس چل رہا ہے، ایک بڑا نادر موقع ہے کہ ہم تاریخ کو قانون اور اپنی سیاست کو درست کریں ، جو آئین کا ذکر کیا جاتا ہے جمہوریت اور انسانی حقوق کا ذکر کیا جاتا ہے تو پرانے سیاستدانوں کو یہ تب یاد نہیں ہوتا جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیںجب حکومت میں آتے ہیںتو آئین قانون اور انسانی حقوق کو بھول جاتے ہیں اس جمہوریت کو بھول جاتے ہیں ،کوئی اپنے آپ کو امیر المومنین بنانا چاہتا ہے تو کوئی اپنی قوت کو ٹائیگر فورس بنانا چاہتا ہے اس طرح ملک نہیں چل سکتے ۔
اس ملک کی 70فیصد آبادی نوجوان ہیں لیکن اسلام آباد میں جو فیصلے لئے جاتے ہیں اگر وہی پرانے سیاستدان فیصلے لیں گے تو وہ پانچ سال کا سوچتے ہیں د س سال کا سوچتے ہیں ، میں نوجوانوں سے پوچھتاہوں پچاس سال کے بعد بعد پاکستان کیسا ہوگا وہ اب کون سا پاکستان چاہتے ہیں۔ ہم آئین کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں میں چاہتا ہوں ہم فخر کے ساتھ گولڈن جوبلی منائیں ۔
سب کو چاہیے کہ ملک کے نوجوانوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش نہ کریں نہ نوجوان بیوقوف بنیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ،آپ نے اپنا حق چھیننا ہے جب آپ اپنا حق چھینتے ہیں تو اپنے فیصلے خود کرتے ہیں ، شاید اسی طرح ہم اپنے ملک کو بچا سکیں اپنے عوام کو اس مہنگائی بیروزگاری اورغربت سے بچا سکیں ۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جب سیلاب آیا تو پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن شرمناک حقیقت ہے کہ اس وقت حکومتیں اورسیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور ہم متاثرین کی مدد نہیں کر سکے ،
ہم آج بد ترین معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، جو معاشی ٹیم آئی وہ بھی بیروزگاری پر قابو نہیں پاسکی ، معیشت اور سیاست میں وہی پرانے طریقے اپنائے گئے ۔ یہ میرا ملک ہے یہ آپ کا ملک ہے ہم سب کا ملک ہے آئیں مل کر اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور خاص طور پر نوجوان نسل کو جن کے پاس ایک امید ہے ہم ان کو مایوس نہیں کرنا چاہتے۔
ان شااللہ آج نہیں تو کل ہم مشکل سے نکلیں گے ،جو قائد عوام شہید ذوالفقا ر بھٹو نے عوام سے وعدے کئے تھے ہم مل کر وہ وعدے پورے کریں گے۔میں وکلاء برادی سے اپیل کرتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل پر ریفرنس میں میرا ساتھ دیں ، جمہوریت ،آئین اور انصاف کے ساتھ تاریخ میں لگے داغ جو ایک ادارے پر پورے ملک پر لگا ہے سب مل کر اس داغ کو دھوئیں ۔